Posts

Showing posts from October, 2022

sher o shayari in urdu love shero shayari 2line

Image
sher o shayari in urdu love shero shayari  2line شرما گیا تھجے چاند دیکھ کر  اپنے حسن کا کمال دیکھ جب بھی تمہاری بات ہوتی ہے میرا دل دھڑکنے لگتا ہے آگی ہے محبت داروازے پر سوال بن کر تیری وفا کی کتاب بن کر  وہ رو کر مجھ سے کہنے لگا پھر دور نہ کھبی تم جانا تیرا یوں روتے ہوۓ چلا جانا ہمیں کب چین سے سونے دیتا ہے ہمیں یوں یاد نہ آیا کرو پاس چلے آو ستایا نہ کرو بس تمہارا دور جانا تھا ہم مسکرانا بھی بھول گے یہ رات تنہائی اور تیری یاد ہمیں سونے نیں دیتی تم جب جب مسکرا ہو گے ہم یاد تمیں آئیں گے

attitude shayari on life 2022

Image
sher o shayari in urdu love shero shayari  2line وہ رو کر مجھ سے کہتا تھا تم دور کبھی نہ جا ہو گے وہ ہار مجھ سے کہتا تھا تم جیت نہ مجھ سے پاؤ گے پھر رونے لگتا تھا تم بیچھڑ نہ مجھ سے پاؤ گے   یہ زمانہ بھی عجیب ہے ناداں کو جینے نیں دیتا   وہ ساقی اور شراب چھوڑ دی ہم نے جو درد کا جام پیلاتے تھے   محبت کے سبھی پھول مرجھا گے اس دنیا کی سزا دیکھ کر   نہ چھوڑ محبت کے تیر ہم پر یہ زخم ہم نے کھاۓ ہیں   خفا نہ ہو اے میرے ناداں دل اس دینا کی بے وفائی سے   محبت چھوڑ دی ہم نے کب سے ان نفرت ہم کرتے ہیں   محفل میں نہ جانا محبت کی یہاں درد کا جام ملے گا   دل میں درد ہوتا تھا تیری یادوں سے وہ دل ہم نے توڑ دیا   خفا محبت ہم سے بھی ہے نیند بھی اس نے چھین لی   یہ دل بھی عجیب ہے   درد لیتا ہے مسکرا کر   مسکرنا ہماری عادت ہے اس درد کی محفل میں   یہ دل بھی پاگل ہے خود آگ لگتا ہے خود کو   وہ مسکرا کر درد دیتے تھے اور ہم پاگل لے لیتے تھے   نہ آئیں گے محبت ہم تیری محفل میں تم نے ہمیں گھر کا راستہ بھولا دیا   یہ دل جب بھی پکارے تیرا نام اس طرح یاد تمیں رکھتا ہے

حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیاوی پنجابی روباعیات

Image
  رب دی ٹوہ تے نکلے لکھاں لکھ لکھ بدل پر ہیوا  پادری ملاں راہب سادھو لا تھکے ٹیوا ہر دی پہنچ توں باہر رہیا یار دے وصل دا میوه  ناصر شاہ رب اوہنوں ملیا جس کیتی یار دی سیوا  تینوں سمجھ نہ آئی کم عقلا توں باہر ٹول دا رہیا  عقل دی کشتی اتے چڑھ کے ہر دم ڈولدا رہیا  تیری جیب اچ لعل سی جھلیاں گھر غیر دا پھول دا رہیا  ناصر جس لئی جنگل چھانے میرے اندر بول دا رہیا  اکھیو نی آؤ دونویں رل کے  رٹھڑا یار منائیے  یا محبوب نوں راضی کرئیے  یا صدقے ہو جائیے  غیراں دے دروازے اندر  پیر کدی ناں پائیے  ناصر جس دا کھائے  اس دے گیت ہمیشہ گائے  ماہی دے دیدار دے بارے فقط سوچیندے رہیے  لا کے سینے درد ماہی دا پلکاں بھیندے رہیے  وچ تصور یار اپنے دا چہرہ وہیندے رہیے  سجناں دے دروازے ناصر جھاڑو دیندے رہیے  ایہو گنڈھ نہیں کھلی سیانیاں توں  سوہنا آر وسدا یا کہ پار وسدا  ہر اک سینے وچ اے یا مدینے وچ اے  کیڑے شہر اندر شہر یار وسدا  لے کے عرش توں توڑ پاتال تیکر  جدھر دیکھئے آپ دلدار وسدا  عشق بولیاں رولا نہ پائیں ناصر  اوہ بے حد اے حداں توں پار وسدا  تارے جیو میں افلاک تے سجدے نیں  ہیرا جیویں خزینے وچ سجدا اے  مہکے پھلا

اردو غزل تیرے نام وفا tere naam wafa urdu gazal shayari

Image
                      غزل تیرے نام وفا جو لکھی تھی وفا وہ ہم پہ مسکرانے لگی ہے .تیرے نام جفا کو لکھی تھی جفا وہ ستانے لگی ہے نہ نیند آۓ نہ قرار آۓ تیری یاد آنے لگی ہے چلے آؤ اب وفا بن کر کہ سانسیں جانے لگی ہیں             غزل ان انکھوں سے کہہ دو  اب رونا چھوڑ دیں ان زخموں سے کہہ دو  اب مرہم لگانا چھوڑ دیں ان لفظوں سے کہہ دو اب مسکرانا چھوڑ دیں چھوڑ چلیں ہیں تیری دنیا ہم  اس دنیا سے کہہ دو اب ستانا چھوڑ دیں

سچی کہانی ہمارے ادب urdu sachi kahani

Image
  عینی ! او عینی! کہاں گم ہوگئی ہو؟‘ نانی جان نے اپنی دس سالہ نواسی کو آواز دی ۔ آئی نانی جان ! ابھی آئی ۔ عینی کی آواز سنائی دی ۔ واہ ماشاءالله ! چشم بد دور ، بہت پیاری لگ رہی ہو، کس کی شادی میں جارہی ہو؟ اور یہ کیا ہے؟‘ نانی جان نے ستائشی نظروں سے دیکھتے ہوۓ ایک دم اس کے ماتھے کی طرف اشارہ کیا۔ افوہ نانی جان ! آپ بہت بھولنے لگ گئی ہیں۔ بتایا تو تھا چودہ اگست کے سلسلے میں آج ہمارے اسکول میں بہت اہم تقریب ہے میں نے ایک ٹیبلو میں حصہ لینے کے علاوہ تقریر بھی کرنی ہے ۔ آپ کو پتا ہے وہ جو آپی کے کالج کی پرنسپل ہیں نا ، وہ مہمان خصوصی ہوں گی ۔ کیا نام ہے ان کا ،اس نے ماتھے پر ہاتھ مارتے ہوۓ نام یاد کیا اور نانی جان بے ساختہ ہنس پڑیں ۔ ابھی تو مجھے کہ رہی تھیں آپ بہت بھولنے لگہ گئی ہیں اور ابھی اپنا حال دیکھو‘ نانی جان نے اسے پاس بٹھایا اور بولیں تم شائد مسز محسن غوری کی بات کر رہی ہو لیکن ! مجھے نیک بخت یہ تو بتاؤ تم نے یہ ماتھے پر کیا لگایا ہے؟ ہری چوڑیاں پہنی ہوئی ہیں بہت پیاری لگ رہی ہیں ،سفید شلوار کے ساتھ ہرا دو پٹہ اور پری قمیضں بھی جھنڈے سے مماثلت رکھتی ہے لیکن ماتھے پر یہ ٹکا سا کیو

رباعیات rubaiyat Hazrat peer syad nasir hussain chishti sialvi rubaiyat

Image
رباعیات rubaiyat Hazrat peer syad nasir  hussain chishti sialvi rubaiyat توں جیوں میں مر جاؤں شالا اتے جیون یار اساڈے جیڑے سانوں کول بلا کے ٹر گئے آپ دراڈے ہر گل بس منواندے اپنی اک ضدی اک ڈاہڈھے ناصر لاڈیاں سجناں بخشے سانوں درد وی لاڈے  بولی بولی سجن وی جھلیاں گیت سجن دے گا توں  بے دلدار نوں راضی کرنا ئیں بلہے وانگ منا توں  محبوباں دے پیر دے جوڑے سردا تاج بنا توں  جے دیوے جگ طعنے ناصر ہس ہس جھولی پاتوں  اک در چنگا سو در نالوں در در توں کیہ لیناں  کنڈ پچھے ہر شے نوں کر کے من دلدار دا کہناں  تسبیح اتے نام سجن دا ناصر پڑھدیاں رہناں  سب توں وڈی یار عبادت یار دے قد میں ڈھیناں  یا رب فضل تیرے دا منگیا تیتھوں خیر کمینے  دیس وکھا اور تلیاں لائیں جتھے ڈھول نگینے  ایہو حسرت ہاہواں بھر دی رہندی اے وچ سینے  دیوے رب توفیق بے ناصر مریئے شہر مدینے  عشق اچ رونا عین عبادت جو رووے پھل پاوے  روون نال وفا دے بوٹے رہن ہمیشہ ساوے  جو رووے دل دھووے اپنا دلدا زنگ لتھ جاوے  رون والے دے گھر ناصر اکثر ماہی آوے  آعشقا باہناں پھڑ ل صیری رل کے ویسے دونویں  جیویں ملیا لوصیری نوں یار ملا دے اونویں  اک واری تے کہہ دے

Hazrat ali aqwal e zareen حضرت علی کے اقوال زرٰیں حضرت علی کے فرمان

Image
  Hazrat ali aqwal e zareen حضرت علی کے اقوال زرٰیں حضرت علی کے فرمان پر ہیز گاری نہایت عمدہ ساتھی ، زہد نیکوئی کی کنجی اور رضا بہ قضا یقین کا ثمرہ ہے۔  پاک دامنی عقل مندوں کی خصلت اور زیادہ حرص گندے اور ناپاک لوگوں کی عادت ہے۔  سخی دوسرے لوگوں سے نیک سلوک کر کے بدلہ لینے سے بے نیاز رہتا ہے۔   فریب دہی کمینہ پن ، خیانت بڑی عہد شکنی اور عقائد میں شک رکھنا کفر ہے۔  خدا تعالی کا خوف عارفوں کی چادر ، اور شوق الہی کمال یقین والوں کی صفت ہے۔  خدا تعالی پر توکل تب ہوسکتا ہے جب یقین کامل ہو۔ شکی طبع انسان کو بھی یقین نہیں ہوتا اور بدکار سے کبھی پر ہیز گاری نہیں ہوسکتی۔  نادان وہ ہے جو اپنی مطلب پرستی کے دھوکے میں پڑار ہے۔ نفسانی لذات انسان کو ہلاک کرنے والی اور جسمانی لذت اس کیلئے آفات ہیں۔  خواہش نفس کے موافق چلانا نادانی اور خلاف چلنا بڑا جہاد ہے۔  شکر نعمت حصول نعمت کا سبب، فقر ایمان کی زینت ، کنجوسی عیوب کا سبب اور  عہد شکنی کمینگی ہے۔  صبر کی توفیق مصیبت کے انداز پر عطا ہوتی ہے اور مصیبت کا اجر مصیبت سے کئی گنا زیادہ ہوتا ہے۔  حریص ہمیشہ ایسی ذلت میں گرفتار رہتا ہے کہ کبھی اس سے چھٹکارا ن

ایک بہادر عورت 1965 کی سچی کہانی true story

Image
  چودہ اگست کی رات کا ابتدائی حصہ بیت رہا تھا۔ ہر طرف مکانوں کی منڈیروں پر روشنی ہی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ کہیں کہیں اونچی عمارتوں کی دیواروں پر بجلی کے رنگا رنگ بلب قوس قزح کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ وجیہ، ساحرہ اور انیزہ نے اپنے مکان کی چھت پر ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک موم بتیاں جلا دی تھیں اور اب وہ فارغ ہو کر انکل عزیز کا انتظار کر رہے تھے۔ انکل عزیز ان کے کوئی رشتے دار تو نہیں تھے مگر چوں کہ ان کے ابا جان کے بہت اچھے دوست تھے اس لیے وہ انہیں اپنا انکل ہی سمجھتے تھے۔ انگل عزیز گیارہ برس امریکا میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آ گئے تھے اور آج رات کھانا ان کے ہاں کھا رہے تھے۔ تینوں بچے بہت خوش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ  انکل ان کے لیے امریکا سے اچھے اچھے تحفے لاۓ ہوں گے۔ پہلے بھی انھوں نے دو مرتبہ انھیں امریکا سے تحفے بھجوائے تھے۔ تینوں بچے بار بار چھت کی منڈیر سے نیچے دیکھتے تھے کہ انکل کی گاڑی آئی یانہیں ۔ جلد ہی دور سے انھیں ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ آ گئے ۔ تینوں بولے اور تیزی سے سیڑھیوں سے اترنے لگے۔انکل عزیز نے سب کو پیار کیا۔ انھوں نے ان بچوں کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ بہت چھوٹے تھے۔ ک

حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں | کر مرشد دی سیوا تینوں ایہہ دنیا بھل جاوے

Image
  حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں | کر مرشد دی سیوا تینوں ایہہ دنیا بھل جاوے  کر مرشد دی سیوا تینوں ایہہ دنیا بھل جاوے فقر نوں یار بناون والا کدی نہ دھوکھا کھاوے  من والا بندہ اکثر رو رو کے پچھتاوے  اوہ کیوں ہسے ناصر جنہوں ہاسہ راس نہ آوے  کٹ کٹ چوری پاواں اونہوں جدوں بولے گا نگ بنیرے  آ جاوے اج ماہی شاید دکھ مک جاون میرے  کدی اڈیکاں بال کے دیوے کدی ماراں واج سویرے  ناصر دید لئ  کرنے پیندے ٹوٹے جتن بتھیرے  لبھدیاں پھرن اجے اوہ منظر کرماں والیاں اکھیاں  جس ویلے محبوب دے در تے کیتے نالے اکھیاں  دیوے بال کے پلکاں اتے کرن اجالے اکھیاں  ناصر کون بجھاوے جیہڑے بھانبڑ بالے اکھیاں  ساڈی جنت باغ بہاراں وچ محبوب دے پیراں  لے گئے بازی یار دے منگتے کجھ ناں کھٹیا غیراں  جہنا قدم سجن دے چم لے کرن فلک دیاں سیراں  ناصر چاہنائیں خیر ہے اپنی منگ دلبر دیاں خیراں  دور سجن توں رہندے جیہڑے کم عقلے بے ڈھنگے  فکر اندیشے دی سولی تے ہر دم رہندے ٹنگے  کیڈا اوہ بد بخت ہے جیہڑا خیر نہ یار دی منگے  ایسے بندے کولوں ناصر کتے بلے چنگے  رو رو داغ فراق تیرے دے دل توں دھوندا وتاں  تیرے باہجوں لکھاں وانگوں بولا

حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں میرے نبی کی شان

Image
ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں میرے نبی کی شان عقل مار انسان دی مت دیندی  عقل آکھدی جیب اچ پیسا ہووے  مال جیب اچ آؤنا چاہیدا اے  مال ای اے بھاویں جیسا ہووے  عشق آکھدا مال نوں بھٹھ پائے  جیہڑا مال یارو ایسا ویسا ہووے  جیویں رزق صدیوں نوں رب دتا  ناصر ہووے جے مال نے ایسا ہووے  فرض جانا بچاؤنا عقل آکھے  جان موت توں ڈردی لکدی اے  عشق آکھدا یار توں وار دے توں گل ایہو ای مکدی چکدی اے  عقل آکھدی نام و نشان رہندا  دولت گھر وچ جدوں آ ڈھکدی اے  عشق کہندا ہے اے میرا اعلان ناصر  گل کرم نوازی تے مکدی اے    عقل کہندی اے رولا نہ پا ہر گز  عشق کہندا پکارنا چاہیدا اے  عقل کہندی کوئی ڈبے تے کہیہ کر یئے  عشق کہندا اے تار تار نا چاہیدا اے  عقل کہندا اے جتنا لازمی ایں  عشق کہندا اے ہارنا چاہیدا اے عقل کہندی توں ناصر بچا سر نوں  عشق کہندا اے وارنا چاہیدا اے ساڈی سن دا اے لعل آمنہ دا  غیر بوہے تے ساڈی دوہائی کوئی نہیں  اس دا کرم جے شامل حال ہو جاۓ  رہ کے غیر تنہا تنہائی کوئی نہیں  مر گئے مر گئے کہندی نہیں  مرن والے ساڈا زندہ اے سانوں جدائی کوئی نہیں ناصر شاہ سرکار دے کرم بابجوں  ساڈی جھولی وچ ہور کمائی کوئی ن

ان منافقوں کی بستی میں شاعری درد دل شاعری

Image
ان منافقوں کی بستی میں شاعری درد دل شاعری ان منافقوں کی بستی میں کچھ خواب ہمارے بھی ٹوٹے ہیں تیرے عہد وفا کے سب وعدے ٹوٹے ہیں درخت سے گرتے پتوں کی طرح نیند لے کر چلا گیا وہ شخص جو خوابوں میں روز ملتا تھا توڑ کے تیری سب قسمیں چھوڑ چلے تیری دنیا ہم نہ وفا تجھ سے ہوگی اے زندگی ہم بے وفا لوگوں سے شاکر نہ آنکھ روٸی نہ رونا آیا تیری بے وفا جداٸی سے نہ رو اے میرے ناداں دل اس بے وفا کی جداٸی سے تجھ جیت کر بھی ہم ہار گے اے زندگی تجھ سے گلہ نیں شکوہ کریں گے وہ کیسے ہم سے درد لے کر جو چلے گے تیری زلف کی زنجیر نے قید کر رکھا ہے پر تو ہمارے بھی تھے شاکر اے درد تجھ سے گلہ نیں گزری ہے تیرے ساتھ زندگی

پنجابی رباعیات حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں

Image
پنجابی رباعیات حضرت پیر سید ناصر حسین چشتی سیالوی رباعیاں عقل مار انسان دی مت دیندی  عقل آکھدی جیب اچ پیسا ہووے  مال جیب اچ آؤنا چاہیدا اے  مال ای اے بھاویں جیسا ہووے  عشق آکھدا مال نوں بھٹھ پائے  جیہڑا مال یارو ایسا ویسا ہووے  جیویں رزق صدیوں نوں رب دتا  ناصر ہووے جے مال نے ایسا ہووے فرض جانا بچاؤتا عقل آکھے  جان موت توں ڈردی لکدی اے  عشق آکھدا یار توں وار دے توں  گلا ایہو ای مکدی چکدی اے  عقل آکھدی نام و نشان رہندا  دولت گھر وچ جدوں آ ڈھکدی اے  عشق کہندا ہے اے میرا اعلان ناصر  گل کرم نوازی تے مکدی اے  عقل کہندی اے رولا نہ پا ہر گز  عشق کہندا پکارنا چاہیدا اے  عقل کہندی کوئی ڈبے تے کیہ کر لئے  عشق کہندا اے تار تار نا چاہیدا اے  عقل کہندا اے جتنا لازمی ایں  عشق کہندا اے ہارنا چاہیدا اے عقل کہندی توں ناصر بچا سر نوں  عشق کہندا اے وارنا چاہیدا اے ساڈی سن دا اے لعل آمنہ دا  غیر بوہے تے ساڈی دوہائی کوئی نہیں  اس دا کرم ہے شامل حال ہو جاۓ  رہ کے فیر تنہا تنہائی کوئی نہیں  مر گئے مر گئے کہندی نہیں  مرن والے ساڈا زندہ اے  سانوں جدائی کوئی نہیں  ناصر شاہ سرکار دے کرم بابچوں  ساڈی جھولی وچ ہور

اقوال زریں خبصورت اقوال سہنریں باتیں

  ہمشہ لوگوں کہ ساتھ اچھا سلوک کرو۔نجانے کب  زندگی کی شام ہو جاۓ۔ ماں کی بددعا سے بچو یہ تمہارے لیے  دوزاخ ہے۔ اگر رب کی محبت دیکھنی ہو تو اپنی ماں  کو دیکھ لینا۔ یہ دنیا رہنے کی جگہ نیں۔ اس دنیا کی خوبصورتی دیکھنے  والوں اس دنیا کو بنانے والے   اس رب کی شان تو دیکھو۔ دل وہ آہٸنہ ہے جس میں انسانیت نظر آتی ہے۔ نظر کے گناہ سے بچودل پاک رہے گا۔ اگر محبت سیکھنی ہو تو ماں سے سیکھو محبت کرنا۔ وفا کرنے کا علم ماں سے سیکھو۔ اگر ہمیشہ سکھ چاہتے ہو تو ماں باپ کی دعاٸیں لو۔ دکھ ہمیشہ ساتھ نیں نبھا سکتا۔ دنیا میں سب سے قیمتی تلوار قلم ہے۔ ماں نے سیکھیا تمہیں چلنا۔ جنت ماں اور دروازہ باپ ہے۔ جھوٹے سے دوستی نہ رکھو اس لعنت کا اثر تم پر بھی ہو گا۔ ایمان ایک ایسی دولت ہےجو تمہیں جنت میں لے کر جاۓ گی۔ اپنے دل کو ذکر خدا سے زندہ رکھو۔ نیکی تمہاری مصیبت میں کام آۓ گی اور گناہ مصیبت میں لے کر جاۓ گا۔