ایک بہادر عورت 1965 کی سچی کہانی true story

 


چودہ اگست کی رات کا ابتدائی حصہ بیت رہا تھا۔ ہر طرف مکانوں کی منڈیروں پر روشنی ہی روشنی پھیلی ہوئی تھی ۔ کہیں کہیں اونچی عمارتوں کی دیواروں پر بجلی کے رنگا رنگ بلب قوس قزح کا سماں پیدا کر رہے تھے۔ وجیہ، ساحرہ اور انیزہ نے اپنے مکان کی چھت پر ایک سرے سے لے کر دوسرے سرے تک موم بتیاں جلا دی تھیں اور اب وہ فارغ ہو کر انکل عزیز کا انتظار کر رہے تھے۔ انکل عزیز ان کے کوئی رشتے دار تو نہیں تھے مگر چوں کہ ان کے ابا جان کے بہت اچھے دوست تھے اس لیے وہ انہیں اپنا انکل ہی سمجھتے تھے۔ انگل عزیز گیارہ برس امریکا میں گزارنے کے بعد واپس پاکستان آ گئے تھے اور آج رات کھانا ان کے ہاں کھا رہے تھے۔ تینوں بچے بہت خوش تھے۔ وہ جانتے تھے کہ 

انکل ان کے لیے امریکا سے اچھے اچھے تحفے لاۓ ہوں گے۔ پہلے بھی انھوں نے دو مرتبہ انھیں امریکا سے تحفے بھجوائے تھے۔ تینوں بچے بار بار چھت کی منڈیر سے نیچے دیکھتے تھے کہ انکل کی گاڑی آئی یانہیں ۔ جلد ہی دور سے انھیں ایک گاڑی آتی نظر آئی۔ آ گئے ۔ تینوں بولے اور تیزی سے سیڑھیوں سے اترنے لگے۔انکل عزیز نے سب کو پیار کیا۔ انھوں نے ان بچوں کو اس وقت دیکھا تھا جب وہ بہت چھوٹے تھے۔ کچھ دیر ادھر ادھر کی باتیں ہوتی رہیں پھر ابا جان بولے:”میرا خیال ہے کھانا تیار ہے۔ پہلے کھالیں ۔ پھر باتیں ہوں گی ۔“ سب کھانے کی میز کے گرد بیٹھ گئے ۔ کھانا کھانے کے بعد ڈرائنگ روم میں چلے گئے ۔ انکل عزیز نے بچوں کو تخفے  دیے تو انھیں بہت خوشی ہوئی۔ بڑے خوب صورت اور پیارے تھے ۔ ” کیوں بھئی! خوش ہو یہ تحفے لے کر؟‘ انکل عزیز نے پوچھا ۔ سن کر تینوں بیک وقت بول اٹھے: ” بہت بہت خوش ہیں ۔شکرا انکل! تمھارے لیے ایک اور تحفہ بھی لایا ہوں ۔“  تینوں انکل کا چہرہ دیکھنے لگے۔ اب تم پوچھو گے کہ وہ تحفہ کیا ہے ۔ پوچھو گے نا ؟ ”جی ہاں ۔ تینوں بول پڑے۔ جوتحفہ میں تمہیں دینا چاہتا ہوں وہ کوئی کھلونا یا اس قسم کی کوئی چیز نہیں ہے ۔ یہ ایک سچی کہانی ہے ۔“ سچی کہانی ؟ تو سنا ہے انکل ۔ ا بھی نہیں ! میں کھانا کھانے کے بعد تھوڑی دیر چہل قدمی کرتا ہوں ۔ واپس آؤں گا تو میرے پاس آ جانا۔ تھوڑی دیر بعد انکل آگئے اور اپنے سونے کے کمرے میں چلے گئے ۔ بچے بھی وہیں پہنچ گئے ۔ تو اب میں اپنا وعدہ پورا کرتا ہوں ۔‘ انکل چند لمحے خاموش رہنے کے بعد کہنے لگے: اس کہانی کا آغاز 1947ء کے زمانے سے ہوتا ہے جب پاکستان اور ہندوستان دو آزاد ملک قائم ہو گئے تھے۔ یہ ۔ تمھاری پیدائش سے کافی پہلے کی بات ہے ۔تم نے اپنی کتابوں میں پڑھا ہو گا کہ پاکستان اور ہندوستان آزاد ہوۓ تو ۔ فسادات شروع ہو گئے ۔ مکانوں کو آگ لگائی گئی۔ ٹرینوں کو لوٹا گیا۔ بے گناہ لوگوں کو مارا گیا۔ بڑا ظلم ہوا۔ ”انکل! ہماری کتاب میں ایک مضمون ہے۔ پاکستان کی کہانی،اس میں ایسی باتیں بتائی گئی ہیں۔ وجیہ نے بتایا۔تو آگے سنو! امر تسر کے قریب ایک گاؤں سے مسلمانوں کے کئی خاندان بسوں اور بیل گاڑیوں میں پاکستان کی طرف روانہ ہوۓ ۔ ہر ایک گاڑی میں دو دو تین تین ایسے مردبھی سوار تھے جو ہتھیاروں سے لیس تھے۔  یہ اپنے لوگوں کی حفاظت کر رہے تھے ۔ایک بیل گاڑی میں زیادہ تعداد عورتوں اور بچوں کی تھی ۔ یہاں ایک مرد کے علاوہ ایک عورت بھی محافظ کا فرض ادا کر رہی تھی ۔ عورت! وہ کیسے؟‘انیزہ جھٹ بول پڑی۔ وہ عام عورت نہیں تھی ۔ بندوق چلانا خوب جانتی تھی ۔ سب سے بڑی بات یہ کہ وہ بڑی بہادر اور جرات مند تھی ۔ ہوا یوں کہ یہ لوگ چلے جارہے تھے کہ دشمنوں کے ایک ٹولے نے انھیں دیکھ لیا۔ وہ ان پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہے تھے ۔ محافظوں نے ان کے ارادے بھانپ لیے اور انھوں نے اپنے ہتھیار سنبھال لیے۔ ایک دشمن یہ سوچ کر کہ ایک بیل گاڑی میں عورتیں اور بچے ہیں اور انھیں آسانی سے لوٹا اور مارا جا سکتا ہے، اس طرف بڑھنے لگا۔ محافظ عورت نے اسے اپنی بیل گاڑی کی طرف آتے دیکھا تو للکار کر بولی۔

”خبردار! جو ایک قدم بھی آگے بڑھایا ، بھون کر رکھ دوں گی ۔‘اس کی آواز میں اتنا جوش اوراتنی قوت تھی کہ دشمن بھونچکا ہوکر رہ گیا۔ خدا کا کرنا کہ پاکستانی فوج کا ایک دستہ وہاں پہنچ گیا۔ دشمن پاکستانی فوجیوں کو دیکھ کر بھاگ گئے اور سارے لوگ صحیح سلامت لاہور پہنچ گئے ۔ یہ عورت جب اپنی بیل گاڑی سے نیچے اتری اور اس نے پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھا تو خوشی کے مارے اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو گئے اس نے پاکستانی مٹی اٹھا کر چوی ، اپنی آنکھوں سے لگائی ۔ پھر یہ ہوا کہ وقت گزرتا گیا۔ یہاں تک کہ 1965

کے سمتبر کامہینہ آ گیا۔اس مہینے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان جنگ شروع ہوگئی۔ اس زمانے میں یہ بہادر عورت ایک لمحہ بھی ضائع ہونے نہیں دی تھی ۔ وہ گھر گھر قائداعظم کا یہ پیغام پہنچاتی تھی : خدا کی قسم ! جب تک ہمارے دشمن ہمیں اٹھا کر بحرہ عرب میں نہ پھینک دیں ہم ہار نہ مانیں گے۔ پاکستان کی حفاظت کے لیے میں تنہا لڑوں گا۔ اس وقت تک لڑوں گا جب تک میرے ہاتھوں میں سکت اور جسم میں خون کا ایک قطرہ بھی موجود ہے۔ اگر کوئی ایسا وقت آ جاۓ کہ پاکستان کی حفاظت کے لیے جنگ لڑنی پڑے تو کسی صورت میں ہتھیار نہ ڈالیں اور پہاڑوں اور جنگلوں، میدانوں میں، دریاؤں میں جنگ جاری رھیں ۔“ قائداعظم کا یہ پیغام سنا کر وہ پاکستانیوں کے دل گر ماتی اور ان کے سینوں میں جوش اور ولولہ پیدا کرتی رہی ۔اس نے عورتوں اور مردوں کا ایک گروپ بنارکھا تھا۔ گروپ محاذ جنگ پر لڑنے والے پاکستانی سپاہیوں کو خوراک اور ضرورت کی ،، چیزیں پہنچاتا تھا۔ یہ دلیر عورت ہر جگہ پہنچ جاتی اور اپنا فرض ادا کرنے میں ذرا بھی نہیں ڈرتی تھی۔ وہ جانتی ہی نہیں تھی کہ خوف کیا چیز ہوتی ہے۔

ایک رات کا ذکر ہے کہ وہ فوجیوں کے کیمپ سے واپس۔ آ رہی تھی ۔ اس نے دیکھا کہ کوئی دشمن زمین پر گرا ہوا ہے ۔ اس نے ٹارچ کی روشنی میں دیکھا کہ ایک پاکستانی فوجی سخت زخمی حالت میں بے ہوش پڑا ہے۔ اردگر دکوئی نہیں تھا۔ اس کے ساتھی یا تو چلے گئے تھے یا کہیں اوراپنی ذمے داری پوری کر  رہے تھے۔ معاملہ بڑا نازک تھا۔اگر وہ کسی مددگار کا انتظار کرتی تو زخمی سپاہی کی زیادہ خون بہہ جانے سے موت واقع ہو جاتی ۔ اس نے اپنے بازو پھیلاۓ اور سپاہی کو اٹھالیا۔

کافی بوجھ تھا مگر وہ ہمت ہارنے کے لیے تیار نی تھی۔ وہ سے اٹھا کر اپنی گاڑی تک لے آئی۔اس کے بازوسن ہو چکے تھے اور سانس لینے میں بڑی تکلیف محسوس کر رہی تھی ۔ اب ڈرائیور نے بھی اس کی مدد کی اور زخمی سپاہی کو ہسپتال پہنچادیا۔ پھر وہ بہادر عورت اپنا کام اسی طرح کرنے لگی جس طرح پہلے کرتی تھی ۔ وہ اکثر زخمی سپاہی کے پاس بیٹھ کر اس کو تسلی دیتی رہتی ۔ جنگ ختم ہوگئی ، زخمی سپاہی صحت یاب ہو کر گھر جانے لگا تو اس نے کہا: ”اماں! آپ نے میری جان بچائی ہے ۔ میں آپ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے ۔ نہیں بیٹا! شکر ادا کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ۔ میں نے اپنی طرف سے وہ فرض ادا کیا ہے جو خطرے کے وقت ہر پاکستانی مرد اور عورت پر عائد ہوتا ہے ۔ اللہ تمھیں پاکستان کی حفاظت کی توفیق دے۔‘ وہ بولی ۔ یہ کہہ انکل خاموش ہو گئے ۔ آ گے انگل؟ ساحرہ بولی۔

آگے بیٹی یہ ہوا کہ وہ بہادر عورت جنگ کے ختم ہونے کے پندرہ روز بعد فوت ہوگئی ۔“ فوت ہوگئی! ہاۓ اللہ ۔‘ا نیزہ نے کہا۔ اور وہ سپاہی؟‘ وجیہ نے پوچھا۔ وہ سپاہی ریٹائر ہو کر امریکا چلا گیا اور اب گیارہ سال بعد اپنے پیارے وطن میں واپس آیا ہے ۔  " آپ انکل؟ سب حیرت سے بول اٹھے۔ ”ہاں! میں ہی وہ سپاہی ہوں جس کی جان اس بہادر عورت نے بچائی تھی ۔“ بچے حیرت سے انکل کو دیکھ رہے تھے۔



Comments

Popular posts from this blog

pyar ke pal urdu shayri

zakhmi dil shayari urdu dard e dil shayari in urdu

مزاحیہ لطیفے استاد شاگرد کے لطیفے 5 مزاحیہ لطیفے