عمر و عیار اور آسمانی محل کا دیو کہانی horror jin ki strory

 

 عمر و عیار اور آسمانی محل کا دیو کہانی horror jin ki strory

دلچسپ کہانیاں عمر و عیار اور آسمانی محل کا دیو ان دنوں گرمی بہت زیادہ پڑ رہی تھی۔ ہر طرف گرم لوئیں چل رہی  تھیں۔ رات کو بھی بہت گرمی ہوتی تھی اس لیے عمرہ کو نیچے نیند نہیں آرہی تھی اچانک اس نے سوچا کہ آج چھت پر جاکر سوتا ہوں ، شاہد چھت پر ہوا چل رہی ہو۔ تو عمرو عیارچھت پر چلا گیا۔ وہاں آج کافی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ عمرو نے اللہ کا شکر ادا کیا اور بستر لگا کر سو گیا۔ اور نیندوں کی وادیوں میں کھو گیا۔ اگلے دن صبح وہ اٹھا اور قریبی پہاڑی پر چلا گیا پہاڑی پر کھڑا ہو کر دور دور کی وادیوں کا جائزہ لے رہا تھا۔ اچانک اس کی نظر نیچے پہاڑی راستے پر ایک گاڑی آتی دیکھائی دی۔ عمرو سوچنے لگا یہ کون سے لوگ ہو سکتے ہیں۔عمرو وہاں سے جلدی نیچے اترا اور گاڑی کا انتظار کرنے لگا گاڑی بجاۓ ادھر آنے کے دوسری سمت مڑ گئی ، دوسری طرف جنگل تھا۔ عمرو جلدی سے جنگل کی طرف بھاگا۔ جب وہ لوگ جنگل میں پہنچے تو وہ لوگ اپنی گاڑی سے نیچے اتر آئے۔ ان لوگوں کے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی تھی۔ عمرو نے اسے دیکھا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ عمرو اچانک ان کے سامنے آگیا، وہ لوگ گھبرا پر سنبھل گئے۔ اور عمرہ کی طرف دیکھنے لگے۔ عمرو نے غصے سے پو چھا۔۔۔ اس میں ایک آدمی بولا ہم تمہاری طرح کے انسان ہیں۔ عمرو مسکرا کر بولا، "وہ تو ٹھیک ہے لیکن "کون ہو تم لوگ اور کیا کرنے آئے ہو یہاں؟" مقصد " وہ آدمی سگریٹ لگا کر بولا، ہم سائنس دان ہیں اور اپنے تجربات کے لئے یہاں اپنی فلم بنانا چاہتے ہیں۔ عمرہ بولا فلم کیا ہوتا ہے ؟ وہ آدمی مسکرا کر بولا، " بھائی جس طرح تم چلتے پھرتے ہو حرکتیں کرتے ہو وہی حرکتیں ہم اپنے کیمرے میں بند کر لیتے ہیں۔ اور پھر اسے سکرین پر چلا کر ویسے ہی دیکھ سکتے ہیں۔ " عمرو سوچ کر بولا ٹھیک ہے پر یہاں پر اور کوئی گڑبڑ نہ ہو ۔۔۔۔ میں چلتا ہوں۔

 عمرواپس چلا آیا۔ وہ لوگ اپنے کام میں مصروف ہو گے۔ ادھر عمرو اپنے گھرٹ پہنچا کیونکہ شام ہو چکی تھی۔ اور سردی بھی بڑھ رہی تھی۔ لہازا وہ بستر میں لیٹ گیا اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مگر اسے نیند کہاں آتی۔ وہ ادھر اُدھر کروٹیں بدلنے لگا۔ ادھر سائنسدان لڑکی رات کے لباس میں اپنے کیمپ سے نکل کر ذرا ٹہلنے لگی کیونکہ آج چاندنی رات تھی،ٹہلتی ٹہلتی وہ کیمپ سے ذرا دور نکل گئی اچانک ایک طرف سے چیتے نے اس پر حملہ کر دیا۔ اس کی چیخ نکل گئی اس سے پہلے کہ چیتا اس کو چیڑ پھاڑ دیتا عمرو نے اس چیتے کو دبوچ لیا اور پھر چیتا عمرو کے شکنجے میں  دم توڑ گیاچیخیں سن کر اس کے دوسرے ساتھی بھی کیمپ سے باہر نکل آئے۔ انھوں نے جب چیتے کو دیکھا تو گھبرا گے  لڑکی نے بتایا کہ اس نے چیتے سے اس کی جان بچائی ہے تمام سائنسدانوں نے عمرو کا بے حد شکریہ ادا کیا۔ عمروان سے شکریہ وصول کر کے واپس اپنے گھر کی طرف چل پڑا، جہاں اس کی بیوی بچے اس کا انتظار کر رہے تھے۔ ایک رات عمرو عیار اپنے چھت پر سور ہا تھا اسے اپنے گردو پیش کی کوئی خبر نہیں تھی۔ وہ ایسے

سو رہا تھا جیسے قیامت تک نہ اٹھے۔ اچانک فضا میں ایک سیاہ رنگ کا بڑا سہ ہیویلہ نمودار ہوا  وہ سیاہ ہیویلہ آہستہ آہستہ نیچے اترنے لگا۔ یہاں تک کی عمرو کے بلکل سر پر پنیچ گیا۔ یہ ایک بہت بڑا دیوتہ تھا اس کے سر پر دو لمبے لمبے نوکیلے اور خمدار سینک تھے۔لیکن عجیب بات یہ تھی۔ کہ اس کی آنکھیں تھی۔

جو چہرے اور جسم کے مختلف حصوں پر اگی ہوئی تھی۔دیو کا سر گنجا تھا ۔ اس نے اپنے خوفناک شعلے برساتی ہوئی آنکھوں سے عمرو عیار کو دیکھا اور 

اس کی داڑھی کو کھینچتے ہوۓ اسے اٹھنے کی کوشش کی۔لیکن پتلی سی داڑھی 

ٹوٹ کر اس کے ہاتھ میں آگئی۔

 اور عمرو چینختا چلاتا ہوا اٹھ بیٹا۔ کس نے میری داڑھی کھینچی، ابھی تو میری داڑھی کو اگے ہوئے چند دن ہی ہوئے تھے عمر و زور زور سے چلانے لگا۔ دیو نے غصے سے میں آکر عمرو کو ایک دھپ لگائی۔ تو وہ چار پائی سے نیچے لڑکھڑاتا ہوا دور جا گرا۔ وہ اٹھا تو اس کی نظر دیو پر پڑی، اتنے ہیبت ناک دیو کو دیکھ کو دیکھ کر دیو کی ہچکھی بندھ گئی۔ بیٹھو بھائی دیو تم کون ہو؟ عمرو نے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔ " میں آسمانی محل کا دیو ہوں اور تمہیں اپنے ساتھ آسانی محل میں لے جانے کے لئے آیا ہوں۔" دیو نے غرا کر کہا۔۔ دیو بھائی تم کتنے اچھے ہو۔ شاہد تم مجھے آسمانی محل کی سیر کرانا چاہتے ہو، میں تھمارے ساتھ ضرور جاؤ گا۔

ہائے میرے اللہ کتنا خوبصورت ہو گا آسمانی محل۔ میں وہاں مٹک مٹک کر سیر کروں گا۔ وہاں کے سب دیو میرے قدموں میں بچھ جائیں گے۔ عمرو خوشی سے چہکتا ہوا بولا۔ "بکواس بند کرو، میں تمہیں اسمانی محل کی سیر کروانے کے لیے نہیں بلکہ تمھاری قربانی دینے کے لیے لے جارہا ہوں۔ " دیو نے غصے سے تلملاتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کیا۔۔۔ تم مجھے وہاں اپنے دیوتا پر قربان کرنے کہ لیے لے کر جارہے ہو۔ ؟ عمروخوف سے پیلا ہوتا ہوا بولا۔۔ ہاں ہمارا دیوتا انسانوں کی قربانی بہت پسند کرتا ہے۔ اور ہمیں اطلاع ملی ہے کہ تم بڑے عیار انسان ہو۔ دیو نے دانت نکالتے ہوئے کہا۔ " ارے بھائی تھے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں عیار ویار نہیں ہوں، مجھے کی معلوم یہ عیاری کیا ہوتی ہے۔میں تومعمولی سا انسان ہوں اور لکڑ ہارا ہوں۔ عمرو نے بات بناتے ہوئے کہا۔ " تم بکواس کر رہے ہو ہمارے قصد نے ہمیں کبھی غلط اطلاع نہیں دی ہے۔ دیو نے غصے سے کہا۔ ارے میرے بھائی! دنیا کا سب سے بڑا عیار تو عمرو ہے۔ جاؤ اسے تلاش کرو۔ عمرو نے جان چھڑانے کے لیے کہا۔ تو تم کیا عمرو عیار نہیں ہو ؟ " دیو نے حیرت سے پوچھا۔ کیا تم نے عمرو عیار لگا رکھی ہے ۔ ایک دفعہ جو کہہ دیا میں عمرو نیں ہوں۔عمرو نے تھوڑا غصے سے کہا۔ تم مجھے عیاری سے بہکا نیں سکتے عمرو کے بچے۔اگر تم میک اپ میں بھی ہوتے تو میں تمہیں پہچان لیتا۔

اب تم میرے ساتھ آسمانی محل میں جانے کے لیے تیار ہو جاؤ۔یہ کہتے ہوۓ دیو نے عمرو کو ٹانگوں سے پکڑ لیا۔عمرو نے اس کے ہاتھوں سے نکل جانا چاہا لیکن دیو کے ہاتھ کسی شکنجے سے کم نہیں تھےاس نے عمرو کو اتنے زور سے پکڑا تھا 

 کہ عمرو کو اپنی ٹانگوں میں سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ چوہے کی اولاد ! کیوں مجھے لنگڑ ا کرنے پر نکلے ہوئے ہو۔ میری ٹانگیں چھوڑ دو ورنہ میں تمہارا تربوزجیسا سرپھوڑ دوں گا۔ عمر نے چیختے ہوئے کہا۔ لیکن دیو پر کوئی اثر نہ ہوا، اور وہ عمرو کو ہوا میں لے کر اڑنے لگا۔ عمرو نے زور کانکہ دیو کے سر پر مارا مگر کوئی بھی اثر نہ ہوا۔۔۔ دیو کا سر تو تانبے جیسا بنا ہو ا تھا۔ دیو نے کوئی موقع بھی نہ دیا کہ عمرہ کوئی عیاری دیکھا سکے۔ دیو تیزی سے آسمان کی طرف پرواز کرتا چلا جارہا تھا۔ آخر وہ ایک بہت بڑے آسمانی محل میں اتر گیا۔ محل کیا تھا ایک بہت بڑا قلعہ تھا۔ محل میں ہر طرف بڑے بڑے باغات ، درخت اور پرندے موجود تھے۔ ایک طرف ایک بہت بڑی اور عالی شان عمارت کھڑی تھی۔ دیو عمرو کو لے کر اس عمارت کی طرف بڑھنے لگا۔ اسے یقین ہو گیا کہ اب یہ دیو اسے اپنے دیوتا پر قربان کر دے گا۔ محل کے دروازے پر دو پہرے دار پہرہ 

 دے رہے تھے ، دیو کو دیکھتے ہی پہرے داروں نے راستہ چھوڑ دیا۔ دیو عمرو کو لے کر ایک بہت بڑے کمرے میں داخل ہو گیا۔ کمرے میں آنکھوں کو خیرہ کرنے والی روشنیاں جگمگ کر رہی تھی۔ عمرو کی آنکھیں چکا چوند ہو گئی۔ تھوڑی دیر بعد دیکھنے کے قابل ہو گیا تو اس کے سامنے سانے کے ایک جھلملاتے ہوئے تخت پر ایک موٹا تازہ دیو براجمان تھا۔ سر پر سینکڑوں ہیروں سے مرصع تاج موجود تھا۔ عمرو کو پکڑ کر لانے والے دیو نے کہا۔۔۔ سرداری یہی عمروعیار ہے۔ میں اسے بڑی آسانی سے پکڑ لایا ہوں۔ " سردار نے عمرہ پر ایک نظر ڈالی اور بولا۔۔

عمروکو شاہی باغ میں لے جا کرباندھ دیاجاۓ۔ اب عمرو کے چہرے پر اطمینان تھا کیونکہ اس نے خود کو بندھوانے سے قبل زنبیل سے سنگ سلیمانی نکال کر اپنی مٹھی میں دبا لیا۔ جب دیو واپس محل کے اندر چلا گیا تو عمرو نے سنگ سلیمانی سے رسیوں کو رگڑنا شروع کر دیا جس سے تمام رسیاں ٹوٹ گئی۔ اب عمرو سوچنے لگا کہ ان وادیوں کے سردار سے کس طرح نپٹا جائے۔ آخر عمرو نے اپنے ذہن میں ایک ترکیب سوچی۔ وہ شاہی محل کی طرف چل پڑا، محل کے قریب پہنچ کر عمرو ایک درخت کے نیچے چھپ گیا۔ کیونکہ سامنے پہرے دار محل کے دروازے کے سامنے پہرا دے رہے تھے۔ عمرو نے زنبیل سے سلیمانی تیر کمان نکالا، اور پہرے دار کو نشانہ بنا کر اسے وہی جگہ پر مار ڈالا۔۔۔۔ تیر کے لگتے ہی پہرے دار جو کہ ایک دیو تھا چیخ مار کر زمین پر گرا اور مر گیا۔ دوسرا دیو گھبرا کر اپنے ساتھی کی طرف بڑھا اس کا جائزہ لینے لگا۔ اسی لمحے عمرو نے زنبیل سے حیدری تلوار نکالی اور درخت کی اوٹ سے نکل کر اس کی طرف بڑھا، قریب پہنچ کر عمرو نے تلوار اس کی گردن پر رکھ دی ، دیو عمرو کو دیکھ کر بہکا بکا رہ گیا۔

تم ۔۔ یہاں دیو بکا کر بولا۔۔۔ ہاں تمہارا ساتھی میرے ہی ہاتھوں سے مرا ہے۔ اگر تم مرنا نہیں چاہتے تو میری بات کا درست درست جواب دینا۔ پوچھو کیا پوچھنا  چاہتے ہو ؟ د یو نے خوف سے تھر تھراتے ہوئے کہا۔۔۔ عمرو نے پو چھا۔۔ "تمھارے سردار کو مارنے کیا کیا راز ہے۔۹۴ دیو چند لمحے خاموش رہنے کے بعد بولا۔ بڑے دروازے کے ساتھ ہی دائیں طرف نیچے زینے ہیں جو ایک

تبہ خانے میں جاتے ہیں۔ لیکن زینوں کے دروازے پر ایک ایسا تالا لگا ہوا ہے جو کسی سے نہیں کھلتا۔ اگر تم اس تالے کو کھول کر تہ خانے میں چلے جاؤ تو تمہیں تہہ خانے کی چھت پر ایک پنجرا نکتا ہوا نظر آئے گا، جس میں ایک طوطا بند ہے۔ بس اسی طوطے میں سردار کی جان ہے۔ " دیو نے بس اتنا ہی بتا یا، عمرو نے اس کی گردن کاٹ دی اور آگے بڑھا۔۔۔ عمرو بہت کو شش کے بعد آخر دروازے تک پیچ ہی گیا۔ عمرو نے حیدری تلوار سے دروازے کا تالا کھولا اور اندر داخل ہو گیا۔ چھت پر ایک پینجرہ گیر لٹکا ہو ا تھا عمرو نے پنجرہ اتار لیا۔ اس میں طوطا بند تھا عمرو نے چاقو سے طوطے کی ٹانگیں کاٹ دی۔سردار کی ٹانگیں بھی کٹ گئی اور وہ زمین پر ڈھیر ہو گیاعمرو نے اس کے سر سے تاج اتار کر زنبیل میں ڈالا اور چاکو طوطے کے دل میں اتار دیا۔

 سردار کا دل بھی پاش پاش ہو گیا اور وہ مر گیا۔ اسی لمحے ایک زور کا دھماکہ ہوا اور ہر چیز وہاں سے غائب ہو گئی۔ پھر ایک طرف سے لبے پروا کی گھوڑا آیا اور عمرو کو بیٹھا کر واپس زمین کی طرف چل پڑا ۔۔ 

Comments

Popular posts from this blog

pyar ke pal urdu shayri

zakhmi dil shayari urdu dard e dil shayari in urdu

مزاحیہ لطیفے استاد شاگرد کے لطیفے 5 مزاحیہ لطیفے